اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس

عرفان صدیقی


تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس
اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس
اور کچھ دن اس سے ملنے کے لیے جاتے رہو
بستیاں بس جائیں گی دریا کے پار اگلے برس
تم تو سچے ہو مگر دل کا بھروسا کچھ نہیں
بجھ نہ جائے یہ چراغِ انتظار اگلے برس
پہلے ہم پچھلی رتوں کے درد کا کر لیں حساب
اس برس کے سارے زخموں کا شمار اگلے برس
میں نئے موسم میں برگِ تازہ بن کر آؤں گا
پھر ملیں گے اے ہوائے شاخسار اگلے برس
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مثمن محذوف
فہرست