غرض کیا کہ محتاج ہو بادشہ کا

انشاء اللہ خان انشا


فقیرانہ ہے دل مقیم اس کی رہ کا
غرض کیا کہ محتاج ہو بادشہ کا
خدنگ آہ کا اے فلک بے طرح ہے
بھروسا تو تاروں کی مت کر زرہ کا
خرابات کی جب سے لذت پڑی ہے
چھٹا بیٹھنا مسجد و خانقہ کا
طواف حرم تجھ کو زاہد مبارک
مرا اور تیرا نہیں ساتھ رہ کا
صنم خانہ جاتا ہوں تو مجھ کو ناحق
نہ بہکا نہ بہکا نہ بہکا نہ بہکا
ترے منہ سے کچھ بو جو آتی ہے مے کی
دماغ دل اس وقت جاتا ہے مہکا
رقیبوں کے دل چاک مثل کتاں ہوں
گزار اس طرف ہو اگر اپنے رہ کا
تری آشنائی میں کیا ہم نے پایا
دیا نقدِ دل اور اپنی گرہ کا
چمک کر تو اے برق مت مار چشمک
تو مستوں کی آتش کو مت اور دہکا
تبھی لطف ہے ساقیا مے کشی کا
کہ تو بھی بہک اور مجھ کو بھی بہکا
کبھی تجھ سے انشاؔ نے بوسہ نہ مانگا
گناہ گار ہے وہ فقط اک نگہ کا
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست