شہر کا شہر ہی مقتول ہے مارے کس کو

عرفان صدیقی


موجِ خوں سوچ میں ہے پار اتارے کس کو
شہر کا شہر ہی مقتول ہے مارے کس کو
اپنی ہی تیزی شمشیر سے شکوہ ہے اسے
کس کو زنجیر کرے ، دار پہ وارے کس کو
ہر طرف کج کلہاں ہدیہ سر چاہتے ہیں
دست بے مایہ یہاں نذر گزارے کس کو
کوئی بستی سے نکلتا نہیں نصرت کے لیے
گھر کسے یاد کرے دشت پکارے کس کو
دیدۂ گریہ طلب، پشت فرس خالی ہے
تو نے دیکھا تھا ابھی نہر کنارے کس کو
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست