میاں کا صدقہِ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

عرفان صدیقی


فقیر ہوں دلِ تکیہ نشیں ملا ہے مجھے
میاں کا صدقہِ تاج و نگیں ملا ہے مجھے
زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا آب و نمک
عجب تبرکِ نانِ جویں ملا ہے مجھے
میں بوریا بھی اسی خاک پر کیا تھا بساط
سو یہ خریطۂ زر بھی یہیں ملا ہے مجھے
چراغِ گنبد و محراب بجھ گئے ہیں تمام
تو اک ستارۂ داغ جبیں ملا ہے مجھے
یہ سر کہاں وہ کلاہِ چہار ترک کہاں
ابھی اجازۂ بیعت نہیں ملا ہے مجھے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
مجتث مثمن مخبون محذوف
فہرست