سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر

مجید امجد


گہرے سروں میں عرضِ نوائے حیات کر
سینے پہ ایک درد کی سل رکھ کے بات کر
یہ دوریوں کا سیلِ رواں، برگِ نامہ بھیج
یہ فاصلوں کے بندِ گراں، کوئی بات کر
تیرا دیار، رات، مری بانسری کی لے
اس خوابِ دل نشیں کو مری کائنات کر
میرے غموں کو اپنے خیالوں میں بار دے
ان الجھنوں کو سلسلۂ واقعات کر
آ، ایک دن، میرے دلِ ویراں میں بیٹھ کر
اس دشت کے سکوتِ سخن جو سے بات کر
امجد نشاطِ زیست اسی کشمکش میں ہے
مرنے کا قصد، جینے کا عزم، ایک سات کر!
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست