شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا

مصطفی زیدی


جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا
کوئی تو غم گسار تھا کوئی تو دوست تھا
اب کس کے پاس جائیں کہ ویرانہ چھٹ گیا
دنیا تمام چھٹ گئی پیمانے کے لیے
وہ مے کدے میں آئے تو پیمانہ چھٹ گیا
کیا تیز پا تھے دن کی تمازت کے قافلے
ہاتھوں سے رشتۂ شب افسانہ چھٹ گیا
اک دن حساب ہو گا کہ دنیا کے واسطے
کن صاحبوں کا مسلک رندانہ چھٹ گیا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست