کاٹنا ہے شبِ تنہائی کا

الطاف حسین حالی


عمر شاید نہ کرے آج وفا
کاٹنا ہے شبِ تنہائی کا
ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم
شوق تھا بادیہ پیمائی کا
کچھ تو ہے قدر تماشائی کی
ہے جو یہ شوقِ خود آرائی کا
یہی انجام تھا اے فصلِ خزاں
گل و بلبلِ کی شناسائی کا
محتسب عذر بہت ہیں لیکن
اذن ہم کو نہیں گویائی کا
ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ
گھر ابھی دور ہے رسوائی کا
فاعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مسدس مخبون محذوف مسکن
فہرست