اک سوچ ہے اور سناٹا ہے

رئیس فروغؔ


مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
اک سوچ ہے اور سناٹا ہے
اس موجِ نفس کا آج تلک
جنگل کی ہوا سے رشتہ ہے
بادل مری گلیوں کا ساتھی
اب تو گھر میں بھی برستا ہے
میں اپنی حدوں میں لوٹ گیا
جیسے طوفان گزرتا ہے
مہکار سے گھائل ہم بھی ہیں
موسم تو اور کسی کا ہے
ہم جاگتے ہیں ملنے کے لیے
پھر وہ بھی مہینوں سوتا ہے
تیر ی راتوں میں سمودوں گا
جتنا بھی مجھ میں اجالا ہے
فہرست