گھر ایسے کو سونپ دیا جو آگ بھی ہے اور ہوا بھی ہے

رئیس فروغؔ


ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے
گھر ایسے کو سونپ دیا جو آگ بھی ہے اور ہوا بھی ہے
اپنی انا کا جال کسی دن پاگل پن میں توڑوں گا
اپنی انا کے جال کو میں نے پاگل پن میں بنا بھی ہے
دیے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اسی ہوا سے جل بھی رہا تھا اسی ہوا سے بجھا بھی ہے
روشنیوں پہ پاؤں جما کے چلنا ہم کو آئے نہیں
ویسے در خورشید تو ہم پر گاہے گاہے کھلا بھی ہے
درد کی جھلمل روشنیوں سے بارہ خواب کی دوری پر
ہم نے دیکھی ایک دھنک جو شعلہ بھی ہے صدا بھی ہے
تیز ہوا کے ساتھ چلا ہے زرد مسافر موسم کا
اوس نے دامن تھام لیا تو پل دو پل کو رکا بھی ہے
ساحل جیسی عمر میں ہم سے ساگر نے اک بات نہ کی
لہروں نے تو جانے کیا کیا کہا بھی ہے اور سنا بھی ہے
عشق تو اک الزام ہے اس کا وصل کا تو بس نام ہوا
وہ آیا تھا قاتل بن کے قتل ہی کرکے گیا بھی ہے
فہرست