ہم بھی زردار بنے درد کو دولت سمجھا

رئیس فروغؔ


عشق افلاس گزیدہ کو مصیبت سمجھا
ہم بھی زردار بنے درد کو دولت سمجھا
اپنے ہونے کو یہ سمجھا کہ کسی خواب میں ہوں
اور اے جان تجھے تیری علامت سمجھا
جیسے ہر شام تجھے روپ بدل کر آئے
میری آنکھوں نے الوژن کو حقیقت سمجھا
کچھ نہ کچھ ہم سے ہر اک شے نے کہا ہے لیکن
جو کسی نے نہ کہا اس کو ہدایت سمجھا
سفر ہجر میں تیری ہی طرح میں نے بھی
چند لمحوں کے تصادم کو رفاقت سمجھا
تو نے دریا کی طرح ہاتھ بڑھائے لیکن
میں نے دہشت میں ترے جسم کو پربت سمجھا
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست