جادے آباد ہیں زمانوں کے

رئیس فروغؔ


ابدی گیت ساربانوں کے
جادے آباد ہیں زمانوں کے
سوچ کے جنگلوں میں دور تلک
منتشر خوف کاروانوں کے
یہ چٹانیں ہیں کچھ کہ پھیلے ہیں
چند اوراق داستانوں کے
زندہ ہیں سینۂ تلاطم میں
خواب مرحوم بادبانوں کے
صحن دارالشفا میں رقص کریں
منجمد لوگ سرد خانوں کے
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست