اور یہ ایک ہی راستہ ہر طرف

رئیس فروغؔ


یہ کشادہ کشادہ فضا ہر طرف
اور یہ ایک ہی راستہ ہر طرف
میں ادھر سے ادھر دوڑتا ہی رہا
گونجتی ہی رہی اک صدا ہر طرف
میری آنکھوں میں کیا چھپ گیا ہے جسے
رات بھر ڈھونڈتی ہے ہوا ہر طرف
چاندنی نیند میں بام و در خواب میں
کوئی سایہ لرزتا پھرا ہر طرف
خواب آتے رہے خواب جاتے رہے
صبح تک ایک عالم رہا ہر طرف
دو گھڑی بھی نہ چمکا تھا سورج مگر
برف پہروں پگھلتا رہا ہر طرف
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
متدارک مثمن سالم
فہرست