کیا بجاتے ہو کٹورا دھوپ میں

رئیس فروغؔ


بجھ گیا جل جل کے دریا دھوپ میں
کیا بجاتے ہو کٹورا دھوپ میں
آسماں سورج کے بیٹے کو جگا
سو گیا کیسے یہ لڑکا دھوپ میں
سب سے اونچی کھڑکیوں پر عکس تھا
کل مرا شیشہ جو چمکا دھوپ میں
گرمیوں کی دوپہر کا ذکر ہے
ہم تھے گھر میں اور گھر تھا دھوپ میں
انتظار ابر کھینچا عمر بھر
روز میرا مور ناچا دھوپ میں
دھوپ نے بھی خوب نہلایا مجھے
خوب ہی میں بھی نہایا دھوپ میں
یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں
بیچتا پھرتا ہے سایہ دھوپ میں
تپ رہا ہے ریگ زار زندگی
یار کیوں کرتے ہو جھگڑا دھوپ میں
خشک مشکیزوں میں خواب برشگال
تشنہ لب ہیں جادہ پیما دھوپ میں
بادلوں سے کہہ رہا تھا وہ کہ ہاں
ایک اپنا بھی ہے بندہ دھوپ میں
دھوپ ہی کے سلسلے پہلے بھی تھے
عہدِ رفتہ ہے گزشتہ دھوپ میں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مسدس محذوف
فہرست