دیدار یار سی بھی دولت نہیں ہے کوئی

حیدر علی آتش


صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
دیدار یار سی بھی دولت نہیں ہے کوئی
آنکھوں کو کھول اگر تو دیدار کا ہے بھوکا
چودہ طبق سے باہر نعمت نہیں ہے کوئی
ثابت ترے دہن کو کیا منطقی کریں گے
ایسی دلیل ایسی حجت نہیں ہے کوئی
یہ کیا سمجھ کے کڑوے ہوتے ہیں آپ ہم سے
پی جائے گا کسی کو شربت نہیں ہے کوئی
میں نے کہا کبھی تو تشریف لاؤ بولے
معذور رکھیے وقت فرصت نہیں ہے کوئی
ہم کیا کہیں کسی سے کیا ہے طریق اپنا
مذہب نہیں ہے کوئی ملت نہیں ہے کوئی
دل لے کے جان کے بھی سائل جو ہو تو حاضر
حاضر جو کچھ ہے اس میں حجت نہیں ہے کوئی
ہم شاعروں کا حلقہ حلقہ ہے عارفوں کا
نا آشنائے معنٰیِ صورت نہیں ہے کوئی
دیوانوں سے ہے اپنے یہ قول اس پری کا
خاکی و آتشی سے نسبت نہیں ہے کوئی
ہژدہ ہزار عالم دم بھر رہا ہے تیرا
تجھ کو نہ چاہے ایسی خلقت نہیں ہے کوئی
نازاں نہ حسن پر ہو مہماں ہے چار دن کا
بے اعتبار ایسی دولت نہیں ہے کوئی
جاں سے عزیز دل کو رکھتا ہوں آدمی ہوں
کیوں کر کہوں میں مجھ کو حسرت نہیں ہے کوئی
یوں بد کہا کرو تم یوں مال کچھ نہ سمجھو
ہم سا بھی خیر خواہ دولت نہیں ہے کوئی
میں پانچ وقت سجدہ کرتا ہوں اس صنم کو
مجھ کو بھی ایسی ویسی خدمت نہیں ہے کوئی
ما و شما کہہ و مہ کرتا ہے ذکر تیرا
اس داستاں سے خالی صحبت نہیں ہے کوئی
شہر بتاں ہے آتشؔ اللہ کو کرو یاد
کس کو پکارتے ہو حضرت نہیں ہے کوئی
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست