گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیوں کر

داغ دہلوی


تو نے کی غیر سے کل میری برائی کیوں کر
گر نہ تھی دل میں تو لب پر تیرے آئی کیوں کر
نہ کہوں گا نہ کہوں گا نہ کہوں گا ہر گز
جا کے اس بزم میں شامت میری آئی کیوں ‌کر
کھل گئی بات جب ان کی تو وہ یہ پوچھتے ہیں
منہ سے نکلی ہوئی ہوتی ہے پرائی کیوں کر
داد خواہوں سے وہ کہتے ہیں‌کہو ہم بھی تو سنیں
دو گے تم حشر میں سب مل کے دہائی کیوں کر
وہ یہاں آئیں وہاں‌غیر کا گھر ہو برباد
اس طرح سے ہو صفائی میں‌صفائی کیوں کر
آئینہ دیکھ کے وہ کہنے لگے آپ ہی آپ
ایسے اچھے کی کرے کوئی برائی کیوں کر
اس نے صدقے میں‌کیے آج ہزاروں آزاد
دیکھئے ہوتی ہے عاشق کی رہائی کیوں کر
داغ کو مہر کہا اشک کو دریا تم نے
اور پھر کرتے ہیں چھوٹوں‌ کی برائی کیوں کر
داغ کل تک تو دعا آپ کی مقبول نہ تھی
آج منہ مانگی مراد آپ نے پائی کیوں‌ کر
فہرست