اپنا گھر تو سوجھتا ہے سیکڑوں فرسنگ سے

شیخ ابراہیم ذوق


دل بچے کیونکر بتوں کی چشم شوخ و شنگ سے
اپنا گھر تو سوجھتا ہے سیکڑوں فرسنگ سے
ایک بھی نکلے نہ میری سی فغانِ دل خراش
گرچہ خوں ٹپکے گلوئے مرغ خوش آہنگ سے
چھپ کے بیٹھے گا کہاں تو ہم سے اے رنگیں نوا
ہو گا تو جس رنگ میں مل جائیں گے اس رنگ سے
بل بے باریکی کہ گویا ہر ترا تار سخن
جنتری میں کھنچ کے نکلا ہے دہان تنگ سے
اے تغافل کیش جلدی آ کہ تو واقف نہیں
اس دلِ بیتاب و جان مضطرب کے ڈھنگ سے
جوشِ گریہ سے رہی برسات برسوں پر کبھی
اس کی تیغ تیز آلودہ نہ دیکھی زنگ سے
میرے گریے کے اثر سے ہو گئے پتھر بھی آب
جھڑتے ہیں جائے شرر پانی کے قطرے سنگ سے
پہلے یہ نیت وضو کی ہے نمازِ عشق میں
دل سے کہہ دیجے کہ دھووے ہاتھ نام و ننگ سے
ذوقؔ زیبا ہے جو ہو ریش سفید شیخ پر
وسمہ آب بنگ سے مہندی مئے گل رنگ سے
فہرست