عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

مرزا غالب


رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرہ ذرہ ساغرِ مے خانۂِ نیرنگ ہے
گردش مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا
شوق ہے ’’ساماں طراز نازش ارباب عجز‘‘
ذرہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا
شکوہ سنج رشک ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن ’’نقاشِ یک تمثالِ شیریں‘‘ تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
فہرست