نہ فراق تھا نہ وصال تھا رہی اک تو بے خبری رہی

مصحفی غلام ہمدانی


ترے منہ چھپاتے ہی پھر مجھے خبر اپنی کچھ نہ ذری رہی
نہ فراق تھا نہ وصال تھا رہی اک تو بے خبری رہی
تو ہمیشہ اے بت مہ لقا رہا محو اپنی ہی شکل کا
ترے عکس حسن کی آرسی ترے سامنے ہی دھری رہی
ترے عہد حسن میں یک زماں نہ جنوں سے مجھ کو ملی اماں
وہی نالہ اور وہی فغاں وہی مشق جامہ دری رہی
کوئی ہووے کیوں کہ نہ تنگ دل ترے دل میں اے بت سنگ دل
اثر آہ اپنی نے یہ کیا کہ رہین بے اثری رہی
نہ خط آئے پر بھی کمی پڑی تری شانِ حسن میں یک ذری
وہی قد کی فتنہ گری رہی وہی رخ کی جلوہ گری رہی
کبھی دل لیا کبھی دیں لیا کبھی زر لیا کبھی سر لیا
یوں ہی اپنی مفت دہی رہی وہی اس کی مفت بری رہی
نہ کمال اوج سے تو گرا کبھی فکرِ شعر میں مصحفیؔ
غزل اور بھی کہی تو نے گر وہی تیری تیز پری رہی
فہرست