25 مارچ 1912 ۔ 06 مئی 1972

سراج الدین ظفر
سراج الدین ظفر اردو زبان کے پاکستان سے تعلق رکھنے و الے نامور شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ جنہوں نے اردو شاعری میں اپنا بھرپور تاثر قائم کیا۔
مزید

29 جون 1914 ۔ 11 مئی 1974

مجید امجد
اردو نظم کی آبرو مجید امجد ایک رجحان ساز شاعر ثابت ہوئے اور انہوں نے آزاد نظم کو ایک سمت دی جس کی وجہ سے اس صنف کا سفر کامیاب رہا۔
مزید

14 مئی 1800 ۔ 14 مئی 1851

مومن خان مومن
مومن خان مومن (پیدائش:1800ء— وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
مزید

15 مئی 1833 ۔ 15 مئی 1903

میر مہدی مجروح
میر مہدی مجروح کے نام سےان کے ہمعصر اور ہم رتبہ شاعروں کے مقابلہ میں ،ہماری زیادہ واقفیت خطوط غالب کی مرہون منت ہے۔مجروح غالب کے ان شاگردوں میں تھے جنہیں وہ بیحد عزیز رکھتے تھے اور انھیں اپنا "فرزند" کہتے تھے۔شاعری میں ہی نہیں ان کی نجی زندگی میں بھی غالب نے مجروح کی ہر طرح مدد اور رہنمائی کی۔شاعری
مزید

16 دسمبر 1752 ۔ 19 مئی 1817

انشاء اللہ خان انشا
سید انشاء اللہ خان انشا کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ اور بے نقط مثنوی اور اردو میں بے نقط دیوان رانی کیتکی کی کہانی جس میں عربی فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔
مزید

25 مئی 1831 ۔ 17 مارچ 1905

داغ دہلوی
داغ دہلوی اردو غزل کے چند بڑے شعرا میں سے ایک ہیں۔ ان کے شاگردوں کا سلسلہ ہندوستان میں پھیلا ہوا تھا۔ اقبال، جگر مراد آبادی، سیماب اکبر آبادی اور احسن مارہروی جیسے معروف شاعر وں کو ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے جانشین نوح ناروی بھی ایک معروف شاعر ہیں۔
مزید

اجی سب تاڑ جاویں گے نہ ایسا تو ستم کیجے

انشاء اللہ خان انشا


کنایہ اور ڈھب کا اس مری مجلس میں کم کیجے
اجی سب تاڑ جاویں گے نہ ایسا تو ستم کیجے
تمہارے واسطے صحرا نشیں ہوں ایک مدت سے
بسان آہوے ٔ وحشی نہ مجھ سے آپ رم کیجے
مہاراجوں کے راجہ اے جنوں ڈنڈوت ہے تم کو
یہی اب دل میں آتا ہے کوئی پوتھی رقم کیجے
گلے میں ڈال کر زنار قشقہ کھینچ ماتھے پر
برہمن بنئے اور طوف‌ در بیتُ الصنم کیجے
کہیں دل کی لگاوٹ کو جو یوں سوجھے کہ تک جا کر
قدیمی یار سے اپنے بھی خلطہ کوئی دم کیجیے
تو انگلی کاٹ دانتوں میں پھلا نتھنے رہاندی ہو
لگا کہنے بس اب میرے بڑھاپے پر کرم کیجے
پھڑکتا آج بھی ہم کو نہ پرسوں کی طرح رکھئے
خدا کے واسطے کچھ یاد وہ اگلی قسم کیجے
ملنگ آپس میں کہتے تھے کہ زاہد کچھ جو بولے تو
اشارا اس کو جھٹ سو نر انگشت شکم کیجے
کبھی خط بھی نہ لکھ پہنچا پڑھایا آپ کو کس نے
کہ القط دوستی انشاؔ سے ایسی یک قلم کیجیے