ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ


کل نغمہ گر جو مطربِ جادو ترا نہ تھا
ہوش و حواس و عقل و خرد کا پتا نہ تھا
یہ بت کہ جائے شیب ہے ، جب تھا نقاب میں
عہدِ شباب اور بتوں کا زمانہ تھا
معلوم ہے ستاتے ہو ہر اک بہانے سے
قصداً نہ آئے رات، حنا کا بہانہ تھا
حسرت سے اس کے کوچے کو کیوں کر نہ دیکھئے
اپنا بھی اس چمن میں کبھی آشیانہ تھا
کیا مے کدوں میں ہے کہ مدارس میں وہ نہیں
البتہ ایک واں دلِ بے مدعا نہ تھا
ساقی کی بے مدد نہ بنی بات رات کو
مطرب اگرچہ کام میں اپنے یگانہ تھا
کچھ آج ان کی بزم میں بے ڈھب ہے بندوبست
آلودہ مے سے دامن بادِ صبا نہ تھا
دشمن کے فعل کی تمہیں توجیہ کیا ضرور
تم سے فقط مجھے گلۂِ دوستانہ تھا
کل شیفتہ سحر کو عجب حال خوش میں تھے
آنکھوں میں نشہ اور لبوں پر ترانہ تھا
فہرست