رہ گئی بات بے قراری کی

مومن خان مومن


ہوئی تاثیر آہ و زاری کی
رہ گئی بات بے قراری کی
شکوۂِ دشمنی کریں کس سے
واں شکایت ہے دوست داری کی
مبتلائے شبِ فراق ہوئے
ضد سے ہم تیرہ روزگاری کی
یاد آئی جو گرمجوشی یار
دیدۂ تر نے شعلہ باری کی
کیوں نہ ڈر جاؤں دیکھ کر وہ زلف
ہے شبِ ہجر کی سی تاریکی
یاس دیکھو کہ غیر سے کہہ دی
بات اپنی امیدواری کی
بس کہ ہے یار کی کمر کا خیال
شعر کی سوجھتی ہے باریکی
کر دے روزِ جزا شب دیجور
ظلمت اپنی سیاہ کاری کی
تیرے ابرو کی یاد میں ہم نے
ناخنِ غم سے دل فگاری کی
قتل دشمن کا ہے ارادہ اسے
یہ سزا اپنی جاں نثاری کی
کیا مسلماں ہوئے کہ اے مومنؔ
حاصل اس بت سے شرمساری کی
فہرست