جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی

فیض احمد فیض


ہم سادہ ہی ایسے تھے ، کی یوں ہی پذیرائی
جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی
آشوب نظر سے کی ہم نے چمن آرائی
جو شے بھی نظر آئی، گل رنگ نظر آئی
امیدِ تلطف میں‌ رنجیدہ رہے دونوں
تو اور تری محفل، میں اور مری تنہائی
یک جان نہ ہو سکیے ، ان جان نہ بن سکیے
یوں ٹوٹ گئی دل میں‌ شمشیرِ شناسائی
اس تن کی طرف دیکھو جو قتل گہِ دل ہے
کیا رکھا ہے مقتل میں، اے چشمِ تماشائی
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن
ہزج مثمن اخرب سالم
فہرست