ایک دن گردشِ افلاک سے یہ بھی ہو گا

یگانہ چنگیزی


آپ سے آپ عیاں شاہد معنی ہو گا
ایک دن گردشِ افلاک سے یہ بھی ہو گا
آنکھیں بنوائیے پہلے ذرا اے حضرت قیس
کیا انہیں آنکھوں سے نظارۂ لیلی ہو گا
شوق میں دامنِ یوسف کے اڑیں گے ٹکڑے
دست گستاخ سے کیا دور ہے یہ بھی ہو گا
لاکھوں اس حسن پہ مر جائیں گے دیکھادیکھی
کوئی غش ہو گا کوئی محو تجلی ہو گا
حسن ذاتی بھی چھپائے سے کہیں چھپتا ہے
سات پردوں سے عیاں شاہد معنی ہو گا
ہوش اڑیں گے جو زمانے کی ہوا بگڑے گی
چار ہی دن میں خزاں گلشنِ ہستی ہو گا
اور امڈے گا دلِ زار جہاں تک چھیڑو
یہ بھی کیا کوئی خزانہ ہے کہ خالی ہو گا
دل دھڑکنے لگا پھر صبحِ جدائی آئی
پھر وہی درد وہی پہلوئے خالی ہو گا
یہ تو فرمائیے کیا ہم میں رہے گا باقی
دل اگر دردِ محبت سے بھی خالی ہو گا
ایک چلو سے بھی کیا یاسؔ رہو گے محروم
بزمِ مے ہے تو کوئی صاحبِ دل بھی ہو گا
فہرست