دل ہے بغل میں یا کوئی دفتر گناہ کا

یگانہ چنگیزی


چلتا نہیں فریب کسی عذر خواہ کا
دل ہے بغل میں یا کوئی دفتر گناہ کا
اب کیا لگے گا دل چمن روزگار میں
مارا ہوا ہے دیدۂ عبرت نگاہ کا
دنیا مقامِ ہو نظر آئے گی ناگہاں
ٹوٹے گا جب طلسم فریبِ نگاہ کا
دل کائناتِ عشق میں شاہوں کا شاہ ہے
مختار کل تمام سفید و سیاہ کا
ثابت ہوا کسی پہ نہ جرمِ وفا کبھی
پردہ کھلا نہ عشق سراپا گناہ کا
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست