منزل ہے ختم سجدۂ شکرانہ کیجیے

یگانہ چنگیزی


موت آئی آنے دیجیے پروا نہ کیجیے
منزل ہے ختم سجدۂ شکرانہ کیجیے
زنہار ترک لذت ایذا نہ کیجیے
ہرگز گناہ عشق سے توبہ نہ کیجیے
نا آشنائے حسن کو کیا اعتبارِ عشق
اندھوں کے آگے بیٹھ کے رویا نہ کیجیے
تاکہ خبر بھی لائیے ساحل کے شوق میں
کوشش بقدر ہمت مردانہ کیجیے
وہ دن گئے کہ دل کو ہوس تھی گناہ کی
یادش بخیر ذکر اب اس کا نہ کیجیے
ساون میں خاک اڑتی ہے دل ہے رندھا ہوا
جی چاہتا ہے گریۂ مستانہ کیجیے
دیوانہ وار دوڑ کے کوئی لپٹ نہ جائے
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا نہ کیجیے
فہرست