نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا

باقی صدیقی


کچھ اس انداز سے اس فتنہ پرور کا پیام آیا
نہ دنیا میرے کام آئی نہ میں دنیا کے کام آیا
بہار میکدہ تقسیم ہونے کو ہوئی لیکن
مرے حصے میں تم آئے نہ مے آئی نہ جام آیا
غمِ ایام تیری برہمی کا نام ہے شاید
جہاں تیری نظرِ بدلی وہیں مشکل مقام آیا
زمانہ پس گیا دو حادثوں کے درمیاں آ کر
ادھر ان کی نظر اٹھی، ادھر گردش میں جام آیا
کنارے آ گلے کوئی سفینہ جس طرح باقیؔ
اھا اک شور جب محفل میں کوئی تشنہ کام آیا
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ہزج مثمن سالم
فہرست