کیسے اپنا دیا جلائیں

باقی صدیقی


یہ رات یہ دشت کی ہوائیں
کیسے اپنا دیا جلائیں
نشہ دیتا ہے زہرِ غم بھی
ہے تاب ستم تو مسکرائیں
ہوتے رہتے ہیں زخمِ تازہ
تم ساتھنہ ہو تو بھول جائیں
اب سوز بھی ساز چاہتا ہے
دنیا کی زباں کہاں سے لائیں
کب تک سنیں دل شکست باتیں
کب تک ہم خود کو آزمائیں
دریا کو پیاس لگ رہی تھی
صحرا سے گزر گئیں گھٹائیں
آئی وہ شاہ کی سواری
آؤ ہم تالیاں بجائیں
در سے دیوار بے خبر ہے
کیسے یہ فاصلے مٹائیں
یہ رنگ کہ رنگ اڑ رہا ہے
یہ ہوش کہ ہوش میں نہ آئیں
ہم تیرے خیال سے بھی گزرے
ایسے میں اگر مراد پائیں
ہو شوقِ سفر کی خیر باقیؔ
لینے لگے حادثے بلائیں
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست