بہت غم کے ماروں نے پہلو بچائے

باقی صدیقی


جو دنیا کے الزام آنے تھے ، آئے
بہت غم کے ماروں نے پہلو بچائے
کسی نے تمہیں آج کیا کہہ دیا ہے
نظر آ رہے ہو پرائے پرائے
بہت واقعے پیش آئے تھے لیکن
نہ تم نے سنے کچھ نہ ہم نے سنائے
ملاقات کی کونسی ہے یہ صورت
نہ ہم مسکرائے ، نہ تم مسکرائے
فسانہ سنائے چلا جا رہا ہوں
یقیں سننے والوں کو آئے نہ آئے
زمانے کی آنکھوں میں نور آ گیا ہے
کوئی اپنے دامن کے دھبے چھپائے
نہ دنیا نے تھاما نہ تو نے سنبھالا
کہاں آ کے میرے قدم ڈگمگائے
الجھے ہیں ہر گام پرخار باقیؔ
کہاں تک کوئی اپنا دامن بچائے
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم
فہرست