ہیں کہیں صبح کے آثار! نہیں کوئی نہیں

باقی صدیقی


اٹھ گئے بزم سے میخورا! نہیں کوئی نہیں
ہیں کہیں صبح کے آثار! نہیں کوئی نہیں
ایک بیکس کے تقاضوں کی حقیقت ہی کیا
میں محبت کا طلبگار! نہیں کوئی نہیں
ظلم، ادبار، ہوس، وہم، عداوت، نفرت
ہیں کوئی جینے کے آثار! نہیں کوئی نہیں
فصلِ گل آئی کھنکنے لگے ساغر لیکن
میں تبسم کا سزاوار! نہیں کوئی نہیں
دب گئے ان کی نگاہوں کے اثر سے باقیؔ
کر لیا جرم کا اقرار! نہیں کوئی نہیں
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست