تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں

باقی صدیقی


غمِ دل کیا، غمِ دنیا بھی نہیں
تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں
زندگی حدِ نظر تک چپ ہے
نغمہ کیسا کوئی نالہ بھی نہیں
سرسری ربط کی امید ہی کیا
اس پہ یہ ظلم کہ ایسا بھی نہیں
بات لب پر بھی نہیں آ سکتی
اور تجھ سے کوئی پردا بھی نہیں
چپ رہیں ہم تو گلے ہوت ہیں
کچھ کہیں تو کوئی سنتا بھی نہیں
ابھی کر دیں تجھے دنیا کے سپرد
ابھی جی بھر کے تو دیکھا بھی نہیں
کبھی ہر موج قدم لیتی ہے
کبھی تنکے کا سہارا بھی نہیں
انتہائے غمِ دنیا معلوم
اب نظر محوِ تماشا بھی نہیں
گرد راہوں پہ جمی ہے باقیؔ
کیسی منزل کوئی چلتا بھی نہیں
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مسدس محذوف
فہرست