ماحول پہ نغمات کی برسات کیے جا

عبدالحمید عدم


کیا بات ہے اے جانِ سخن بات کیے جا
ماحول پہ نغمات کی برسات کیے جا
دنیا کی نگاہوں میں بڑی حرص بھری ہے
نا اہل زمانے سے حجابات کیے جا
نیکی کا ارادہ ہے تو پھر پوچھنا کیسا
دن رات فقیروں کی مدارات کیے جا
چلتے رہیں مدہوش پیالوں کی روش پر
نادان ستاروں کو ہدایات کیے جا
اللہ ترا حسن کرے اور زیادہ
ہم راہ نشینوں سے ملاقات کیے جا
بن آئے جوابات تو مل جائیں گے خود ہی
اے داورِ محشر تو سوالات کیے جا
ہستی و عدم کیا ہیں بجز جنبشِ ابرو
اے جان کنایات اشارات کیے جا
کہتا ہے عدمؔ مجھ کو ہر اک گوشۂ ہستی
آیا ہے تو کچھ سیر خرابات کیے جا
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست