مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے

قمر جلالوی


مریضِ محبت انہیں کا فسانہ سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا کے دلِ مضطرب ہے جواب ان کا آیا محبت کرتے
تمھیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آنہ جائے دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کہ ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
ادھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے ادھر تھک جائیں گے پاؤں چلتے چلتے
وہ مہمان میری ہوئے بھی تو کب تک ہوئی شمع گل اور نہ ڈوبے ستارے
قمر اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
متقارب مثمن سالم مضاعف
فہرست