کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے

شکیب جلالی


منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے
کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے
اس حادثے کی‘ نخوتِ ساقی کو کیا خبر
بادہ پیا کہ زہر پیا تشنہ کام نے
چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لیے مگر
سب راز اس کے ‘ کہہ دیے طرزِ خرام نے
نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے
حد نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے
تھے حادثوں کے وار تو کاری‘ مگر مجھے
مرنے نہیں دیا خلشِ انتقام نے
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست