کچھ اس کا بھی سدباب یارو

شکیب جلالی


تارے ہیں نہ ماہتاب یارو
کچھ اس کا بھی سدباب یارو
آنکھوں میں چتائیں جل رہی ہیں
ہونٹوں پہ ہے آب آب یارو
تاحدِ خیال ریگِ صحرا
تاحدِ نظر سراب یارو
رہبر ہی نہیں ہے ساتھ اپنے
رہزن بھی ہیں ہم رکاب یارو
شعلے سے جہاں لپک رہے ہیں
برسے گا وہیں سحاب یارو
مفعول مفاعِلن فَعُولن
ہزج مسدس اخرب مقبوض محذوف
فہرست