وہی جرس کی صدا پھر کہیں سے آنے لگی

عرفان صدیقی


بساطِ رقص جو گردِ سفر بچھانے لگی
وہی جرس کی صدا پھر کہیں سے آنے لگی
عجیب موج ہے ، دشمن کہوں کہ دوست کہوں
زمین کاٹ رہی تھی کہ گل کھلانے لگی
سدا کہیں کوئی بے آشنا نہیں رہتا
مجھے ہوائے مسافت گلے لگانے لگی
میں بے کنار سمجھنے کو تھا سمندر کو
کہ ایک شاخ سرِ آب جگمگانے لگی
دعائے شامِ دل آزردگاں بھی کیا شے ہے
چراغ جلنے لگے ‘ رات مسکرانے لگی
ابھی کھلا بھی نہ تھا رختِ شوقِ دلی میں
کہ پھر ہمیں کششِ لکھنٔو بلانے لگی
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست