ہوا طلوع افق پر مرے دو بارہ کوئی

عرفان صدیقی


شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی
ہوا طلوع افق پر مرے دو بارہ کوئی
امیدواروں پہ کھلتا نہیں وہ بابِ وصال
اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی
مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا
خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی
کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ
چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی
بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اس بار
کہ سب کو غیب سے ملتا نہیں اشارہ کوئی
گماں نہ کر کہ ہوا ختم کارِ دل زدگاں
عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی
اگر نصیب نہ ہو اس قمر کی ہم سفری
تو کیوں نہ خاکِ گزر پر کرے گزارہ کوئی
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلاتن
مجتث مثمن مخبون
فہرست