کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے

عرفان صدیقی


روشنیوں کے مالک اب ہم کو رستے کا اشارا دے
کالی رات دیا دے کوئی، جنگل کوئی تارا دے
جانے کب سے جلنے والے ، ڈوبنے والے ، سوچتے ہیں
شاید کوئی آگ میں کیاری، پانی میں گلیارا دے
سوکھے ہوئے دریا کے کنارے ، پیڑ کھڑے ہیں دھیر دھرے
بادل چادر سایہ کرے ، یا لہر کوئی چمکارا دے
اجلی لڑکی دنیا میں بڑی کالک ہے ، پر ایسا ہو
مانگ میں تیری جگنو چمکیں‘ لونگ تری لشکارا دے
رکنا ہو یا چلنا ہو، کوئی فکر نہیں بنجارے کو
بنجارن نئے چھپر چھائے ، کوچ میں پوت سہارا دے
فہرست