کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کر دے

عرفان صدیقی


در و دیوار میں کچھ تازہ ہوا حل کر دے
کوئی رات آئے اور اس شہر کو جنگل کر دے
پس نظارہ نکلتا ہے تماشا کیا کیا
آنکھ وہ شے ہے کہ انسان کو پاگل کر دے
میں وہ طائر ہوں کہ ہے تیر کی زد سے باہر
اب یہ ضد چھوڑ مجھے آنکھ سے اوجھل کر دے
ہے کوئی شخص مرے دشتِ زیاں کا سفری
ہے کوئی شخص جو اس دھوپ کو بادل کر دے
ایک رنگ آج بھی تصویرِ ہنر میں کم ہے
موجِ خوں آ‘ مرا دیوان مکمل کردے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست