آتے موسم کا پتا سوکھی ہوئی ڈالی دے

عرفان صدیقی


کس کو دھوکا یہ ہوا بیتی رتوں والی دے
آتے موسم کا پتا سوکھی ہوئی ڈالی دے
اے خدا! سبزۂ صحرا کو بھی تنہا مت رکھ
اس کو شبنم نہیں دیتا ہے تو پامالی دے
ہر برس صرف سمندر ہی پہ موتی نہ لٹا
ابرِ نیساں مرے کھیتوں کو بھی ہریالی دے
جب کبھی شام کو تو دستِ دعا پھیلائے
آسماں کو ترے ہاتھوں کی حنا لالی دے
چپ ہوا میں تو بس اقرارِ خطا ہی سمجھو
کیا بیاں اس کے سوا مجرمِ اقبالی دے
ویسے آنکھیں تو گنہگار بہت ہیں عرفانؔ
آگے جو کچھ مرے جذبوں کی خوش اعمالی دے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست