ہم کو سب مہربان ملتے ہیں

عرفان صدیقی


در پئے جسم و جان ملتے ہیں
ہم کو سب مہربان ملتے ہیں
زندگی ہے تو دشمنان عزیز
پھر تہہ آسمان ملتے ہیں
حرج کیا ہے ہمارے ملنے میں
رات دن بھی تو آن ملتے ہیں
کیوں نہ تم میرے دل میں بس جاؤ
اس گلی میں مکان ملتے ہیں
سارے آئندگاں کو رستے ہیں
رفتگاں کو نشان ملتے ہیں
کشتیوں کا تو نام ہوتا ہے
شوق کو بادبان ملتے ہیں
فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
فہرست