گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی

عرفان صدیقی


سروں کو ربط رہا ہے سناں سے پہلے بھی
گزر چکے ہیں یہ لشکر یہاں سے پہلے بھی
یہ پہلی چیخ نہیں ہے ترے خرابے میں
کہ حشر اٹھے ہیں میری فغاں سے پہلے بھی
ہماری خاک پہ صحرا تھا مہرباں بہت
ہوائے کوفۂ نامہرباں سے پہلے بھی
بجھا چکے ہیں پرانی رفاقتوں کے چراغ
بچھڑنے والے شبِ درمیاں سے پہلے بھی
ہمیں نہیں ہیں ہلاکِ وفا کہ لوگوں پر
چلے ہیں تیر صفِ دوستاں سے پہلے بھی
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست