میں جل رہا ہوں اسی روشنی میں پہلے سے

عرفان صدیقی


چمک ہے عشق کی تیرہ شبی میں پہلے سے
میں جل رہا ہوں اسی روشنی میں پہلے سے
چلی تھی خاک بھی میری وہیں بکھرنے کو
ہوا نے رقص کیا اس گلی میں پہلے سے
کوئی بھی حلقۂ زنجیر ہو اسیر ہوں میں
ترے ہی سلسلۂ دلبری میں پہلے سے
ترے وصال سے کچھ کم نہیں امیدِ وصال
سو ہم ہلاک ہوئے ہیں خوشی میں پہلے سے
ڈبو دیا مجھے میرے لہو نے آخر کار
بھنور تو سوئے ہوئے تھے ندی میں پہلے سے
کھلا کہ تیرا ہی پیکر مثالِ صورتِ سنگ
چھپا ہوا تھا مری شاعری میں پہلے سے
مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن
فہرست