کوئی خنجر رگِ گردن کے قریں آ گیا ہے

عرفان صدیقی


شور کرنا ہمیں بے وجہ نہیں آ گیا ہے
کوئی خنجر رگِ گردن کے قریں آ گیا ہے
کو بہ کو صید چلے آتے ہیں گردن ڈالے
شہر میں کون شکاری سرزیں آ گیا ہے
اور کیجیے ہنر خوش بدناں کی تعریف
وہ بدن آگ لگانے کو یہیں آ گیا ہے
دلِ برباد زمانے سے الگ ہے شاید
سارا عالم تو ترے زیرِ نگیں آ گیا ہے
ان کے نزدیک یہ ساری سخن آرائی تھی
تجھ کو دیکھا ہے تو لوگوں کو یقیں آ گیا ہے
اب کسی خیمہ گہ ناز میں جاتے نہیں ہم
بیچ میں کب سے کوئی خانہ نشیں آ گیا ہے
فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع
فہرست