کہ زندہ جہاں لوگ مرنے کو تھے

عرفان صدیقی


طلسمات تھا شہ سواروں کا شہر
کہ زندہ جہاں لوگ مرنے کو تھے
کرامت کوئی ہونے والی تھی رات
فقیر اس گلی سے گزرنے کو تھے
ادھر تیر چلنے کو تھے بے قرار
ادھر سارے مشکیزے بھرنے کو تھے
ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج
فرشتوں کے لشکر اترنے کو تھے
سمندر ادا فہم تھا‘ رک گیا
کہ ہم پاؤں پانی پہ دھرنے کو تھے
اگر ان کی بولی سمجھتا کوئی
تو دیوار و در بات کرنے کو تھے
ہوا نے ٹھکانے لگایا ہمیں
ہم اک چیخ تھے اور بکھرنے کو تھے
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل
متقارب مثمن محذوف
فہرست