اور کھول کر رضائی ہم بھی لپٹ رہے ہوں

انشاء اللہ خان انشا


جاڑے میں کیا مزہ ہو وہ تو سمٹ رہے ہوں
اور کھول کر رضائی ہم بھی لپٹ رہے ہوں
اب آپ کی دموں میں ہم آ چکے ہٹو بھی
خوش آوے پیارے کس کو جب دل ہی کٹ رہے ہوں
کیوں کر زباں سے ان کی اپنا بچاؤ ہووے
ذات و صفات سب کے جب وہ اکٹ رہے ہوں
آتے تھے ساتھ میرے دیکھو تو کیا ہوئے وہ
ایسا نہ ہو کہ پیچھے رشتہ میں کٹ رہے ہوں
تب سیر دیکھے کوئی باہم لڑائیوں کے
کھینچے ہوں وہ تو تیغا اور ہم بھی ڈٹ رہے ہوں
کیا کر سکیں دوانے حالِ دل پریشاں
زلفوں کے بال ان کے جب آپ لٹ رہے ہوں
آپس میں روٹھنے کا انداز ہو تو یہ ہو
وہ ہم سے پھٹ رہے ہوں ہم ان سے پھٹ رہے ہوں
جی چاہتا ہے اے دل اک ایسی رات آوے
مطلع ہو صاف شہرا بادل بھی پھٹ رہے ہوں
سوتے ہوں چاندنی میں وہ منہ لپیٹے اور ہم
شبنم کا وہ دوپٹہ پٹھے الٹ رہے ہوں
پنجم غزل اب انشاؔ انداز کی سنا دی
آغوش میں معانی جس کے لپٹ رہے ہوں
مفعول فاعِلاتن مفعول فاعِلاتن
مضارع مثمن اخرب
فہرست