باغ مت جاؤ کہ ہے امن و چمن آئینے میں

انشاء اللہ خان انشا


نرگسستاں کی بھی ٹک دیکھو پھبن آئینے میں
باغ مت جاؤ کہ ہے امن و چمن آئینے میں
لہریں لیتا ہے پڑا مچھی بھون آئینے میں
چوم لے تو ہی بھلا اپنا دہن آئینے میں
راجہ نل کا جو پڑا عکس دہن آئینے میں
تو نظر آئی اسے شکل دمن آئینے میں
کیوں کہ میں جیسے کو تیسا ہی نہ پھر آؤں نظر
یعنی کیا معنی نہ ہو آئینہ پن آئینے میں
مدھ پہ جوبن کے چڑھے ایسے ہی تھے وہ تو کہ بس
آ گئے نشے میں دیکھ اپنی پھبن آئینے میں
تیور ایسے ہی ہلاکو ہیں جو کچھ بس ہو تو وہ
عکس آدم کو کریں گور و کفن آئینے میں
شغل آئینہ سے لذت یہ اٹھائی ہے کہ بس
ہم فقیروں نے کیا اپنا وطن آئینے میں
شعلے آہوں کے بدن اپنے سے ہیں یوں ہی نمود
منعکس جیسے ہو سورج کی کرن آئینے میں
حوض آئینہ سے فوارہ نزاکت کا چھٹے
رونق افزا جو ہو وہ چاہِ ذقن آئینے میں
واہ اس طفلی و اس شکل جوانی کے بدل
سامنے ہوویں گے اک مرد کہن آئینے میں
دیکھ کر اپنی بہار اس نے یہ انشاؔ سے کہا
باغ میں کب ہے چمن جو ہے چمن آئینے میں
فہرست