توڑوں گا خم بادۂِ
انگور کی گردن
رکھ دوں گا وہاں کاٹ کے اک
حور کی گردن
خوددار کی بن شکل الف ہائے انا الحق
نت چاہتی ہیں اک نئی
منصور کی گردن
کیوں ساقی خورشید جبیں کیا ہے نشہ ہوں
سب یوں ہی چڑھا جاؤں مے
نور کی گردن
اچھلی ہوئی ورزش سے تری ڈنڈ پہ مچھلی
ہے نامِ خدا جیسی
سقنقور کی گردن
تھا شخص جو گردن زدنی اس سے یہ بولے
اب دیجیے ہے دینی جو
منظور کی گردن
آئینہ کی گر سیر کرے شیخ یہ دیکھے
سر خرس کا منہ خوک کا
لنگور کی گردن
یوں پنجۂِ مژگاں میں پڑا ہے یہ مرا دل
جوں چنگل شہباز میں
عصفور کی گردن
تب عالم مستی کا مزا ہے کہ پڑی ہو
گردن پہ مری اس بت
مخمور کی گردن
بیٹھا ہو جہاں پاس سلیمان کے آصف
واں کیوں نہ جھکی قیصر و
فغفور کی گردن
بھینچی ہے بغل اپنی میں اس زور سے جو عشق
تو توڑنے پر ہے کسی
مجبور کی گردن
اے مست یہ کیا قہر ہے خشت سر خم سے
کیوں تو نے صراحی کی بھلا
چور کی گردن
محفل میں تری شمع بنی موم کی مریم
پگھلی پڑی ہے اس کی وہ
کافور کی گردن
اے دیو سفید سحری کاش تو توڑے
اک مکے سے خور کے شب
دیجور کی گردن
جب کشتۂِ الفت کو اٹھایا تو الم سے
بس ہل گئی اس قاتل
مغرور کی گردن
بے ساختہ بولا کہ ارے ہاتھ تو ٹک دو
ڈھلکے نہ مرے عاشق
مغفور کی گردن
حاسد تو ہے کیا چیز کرے قصد جو انشاؔ
تو توڑ دے جھٹ بلغم
باعور کی گردن