اس عشق میں ہر فصل کی سوغات رہی ہے

مصطفی زیدی


سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
اس عشق میں ہر فصل کی سوغات رہی ہے
کس طرح خود اپنے کو یقیں آئے کہ اس سے
ہم خاک نشینوں کی ملاقات رہی ہے
صوفی کا خدا اور تھا شاعر کا خدا اور
تم ساتھ رہے ہو تو کرامات رہی ہے
اتنا تو سمجھ روز کے بڑھتے ہوئے فتنے
ہم کچھ نہیں بولے تو تری بات رہی ہے
ہم میں تو یہ حیرانی و شوریدگی عشق
بچپن ہی سے منجملۂ عادات رہی ہے
اس سے بھی تو کچھ ربط جھلکتا ہے کہ وہ آنکھ
بس ہم پہ عنایات میں محتاط رہی ہے
الزام کسے دیں کہ ترے پیار میں ہم پر
جو کچھ بھی رہی حسب روایات رہی ہے
کچھ میرؔ کے حالات سے حاصل کرو عبرت
لے دے کے اب اک عزتِ سادات رہی ہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف
فہرست