کب ملیں دلبر سے دیکھا چاہیے

الطاف حسین حالی


حشر تک یاں دل شکیبا چاہیے
کب ملیں دلبر سے دیکھا چاہیے
ہے تجلی بھی نقاب روئے یار
اس کو کن آنکھوں سے دیکھا چاہیے
غیر ممکن ہے نہ ہو تاثیر غم
حالِ دل پھر اس کو لکھا چاہیے
ہے دل افگاروں کی دل داری ضرور
گر نہیں الفت مدارا چاہیے
ہے کچھ اک باقی خلش امید کی
یہ بھی مٹ جائے تو پھر کیا چاہیے
دوستوں کی بھی نہ ہو پروا جسے
بے نیازی اس کی دیکھا چاہیے
بھا گئے ہیں آپ کے انداز و ناز
کیجیے اغماض جتنا چاہیے
شیخ ہے ان کی نگہ جادو بھری
صحبتِ رنداں سے بچنا چاہیے
لگ گئی چپ حالیؔ رنجور کو
حال اس کا کس سے پوچھا چاہیے
فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
رمل مسدس محذوف
فہرست