یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجیے گا

الطاف حسین حالی


جہاں میں حالیؔ کسی پہ اپنے سوا بھروسا نہ کیجیے گا
یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجیے گا
جو لاکھ غیروں کا غیر کوئی، نہ جاننا اس کو غیر ہرگز
جو اپنا سایہ بھی ہو تو اس کو تصور اپنا نہ کیجیے گا
سنا ہے صوفی کا قول ہے یہ کہ ہے طریقت میں کفر دعویٰ
یہ کہدو دعویٰ بہت بڑا ہے پھر ایسا دعویٰ نہ کیجیے گا
کہے اگر کوئی تم کو واعظ کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہو
زمانہ کی خو ہے نکتہ چینی، کچھ اس کی پروا نہ کیجیے گا
لگاؤ تم میں نہ لاگ زاہد، نہ درد الفت کی آگ زاہد
پھر اور کیا کیجیے آخر جو ترکِ دنیا نہ کیجیے گا
مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن مَفاعلاتن
جمیل مثمن سالم
فہرست